سانحات سے بچاؤ سے متعلق سوال و جواب

غیر ملکیوں کا انخلاء، سانحے کے دوران ہر ایک کی جان کیسے بچائی جائے؟

1۔ غیر ملکی، جاپان کی کُل آبادی کا 2 فیصد

این ایچ کے، قدرتی سانحات سے بچاؤ کے اقدامات کے بارے میں سوالات کے جواب دے رہا ہے۔ کوئی قدرتی آفت آنے کی صورت میں جاپان میں قیام پذیر غیر ملکی باشندے اس کی زد میں آ سکتے ہیں، کیونکہ زبان اور ثقافت میں فرق کی وجہ سے انہیں نقصان پہنچنے کا نسبتاً زیادہ امکان ہوتا ہے۔ ہم جاپان میں قدرتی آفت یا سانحے سے کس طرح نبٹ سکتے ہیں؟ ہمارے اس تازہ ترین سلسلے میں، ہم جاپان بھر میں پیش آنے والے کئی طرح کے واقعات سے سیکھے گئے اسباق پر توجہ مرکوز کریں گے۔

جاپان میں تقریباً 30 لاکھ غیر ملکی رہائش پذیر ہیں جن میں مختصر مدّت کیلئے آنے والے مسافر شامل نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جاپان کی آبادی کے ہر 50 افراد میں سے ایک غیر ملکی ہے جو کہ مجموعی آبادی کا تقریباً 2 فیصد بنتا ہے۔

فی ملک اور خطے کے لحاظ سے جاپان میں قیام پذیر غیر ملکیوں کی تعداد کی بات کی جائے تو چینی باشندوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اس کے بعد دوسرے نمبر پر ویتنام ہے۔ مصنوعات سازی اور زراعت کا ہُنر سیکھنے کی غرض سے تکنیکی تربیت حاصل کرنے کیلئے پہلے سے زیادہ ویتنامی باشندے جاپان آ رہے ہیں۔ جنوبی کوریا تیسرے، فلپائن چوتھے اور برازیل پانچویں نمبر پر ہے۔

انسٹیٹیوٹ فار ہیومن ڈائیورسٹی جاپان کی چین سے تعلق رکھنے والی محترمہ یانگ زی نے 2016ء میں کُماموتو پریفیکچر میں آنے والے شدید زلزلے سے متاثرہ علاقے سمیت سانحات سے متاثرہ کئی علاقوں کا دورہ کیا ہے۔ اُن کی تحقیق سانحات کے باعث مصائب کا شکار ہونے والے غیر ملکیوں کے حالات پر مرکوز ہے۔

محترمہ یانگ نے کہا ہے کہ اگرچہ لفظ “غیر ملکی” اجتماعی طور پر تمام غیر ملکیوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ تمام غیر ملکیوں کی اپنی اپنی الگ زبان اور رسم و رواج ہیں۔ لہٰذا جاپانیوں اور غیر ملکیوں دونوں کیلئے یہ بات اہم ہے کہ وہ کسی قدرتی آفت یا سانحے کے دوران ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے باہمی مدد کریں۔ محترمہ یانگ ایسی مدد فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہیں جو مختلف زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے ہر ایک کے لیے مفید ثابت ہو۔

اگلی قسط میں ہم ایسے واقعات کا حوالہ دیں گے جو کُماموتو میں آئے زلزلے کے دوران حقیقتاً پیش آئے تھے۔

یہ معلومات 14 مارچ 2023 تک کی ہیں۔

2۔ غیر ملکیوں کو لسانی رکاوٹ کا سامنا

این ایچ کے، قدرتی سانحات سے بچاؤ کے اقدامات کے بارے میں سوالات کے جواب دے رہا ہے۔ قدرتی آفت سے متاثر ہونے کی صورت میں جاپان میں رہائش پذیر غیر ملکیوں کو زبان اور ثقافت مختلف ہونے کی وجہ سے مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔رواں سلسلے میں اس امر پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے کہ قدرتی آفات کے بعد غیر ملکی افراد درپیش آنے والے حالات سے کس طرح نبٹ سکتے ہیں۔ آج ہم جاپان پہنچنے کے فوراً بعد شدید زلزلے کے تجربے سے گزرنے والے ایک پاکستانی شہری کی داستان پیش کررہے ہیں۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے امام مسجد شیراز ایس خان، جاپان کے جنوب مغرب میں واقع شہر کُماموتو میں رہائش پذیر ہیں۔ یہاں اُن کے منتقل ہونے کے ایک ماہ بعد یعنی 14 اپریل 2016 کو شہر میں زلزلہ آیا۔ صفر سے سات درجے تک ریکارڈ کرنے والے جاپانی زلزلہ پیما پر اس زلزلے کی شدت سات ریکارڈ کی گئی۔ شیراز نے سوچا کہ عمارت میں رہنا خطرے سے خالی نہ ہو گا، لہٰذا انہوں نے دیگر مسلمان رہائشیوں کے ہمراہ انخلاء کرتے ہوئے مسجد کے نزدیک ایک پارک میں پناہ حاصل کی۔ رات کا وقت تھا اور پھر بارش بھی برسنا شروع ہو گئی۔

مشکلات کا سلسلہ یہاں ختم نہ ہوا۔ پھر شیراز خان اور دیگر افراد کو جاپانی زبان پر عبور حاصل نہ ہونے کے باعث ’’لسانی رکاوٹ‘‘ کا سامنا کرنا پڑا۔

وہ کہتے ہیں، ’’علاقائی حکام ایک گاڑی میں آئے اور ہمیں کچھ کہنے لگے، لیکن مجھے سمجھ نہ آئی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ نتیجتاً ہمیں رات وہیں بسر کرنا پڑی‘‘۔

شیراز خان اور دیگر بالآخر ایک پناہ گاہ تک پہنچنے میں کامیاب رہے، لیکن وہاں ایک اور مسٔلے نے انہیں گھیر لیا۔ یہ مسٔلہ پناہ گاہ میں فراہم کی جانے والی خوراک کا تھا۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، مسلمان افراد حلال قرار دی گئی خوراک ہی کھا سکتے ہیں۔ لیکن شیراز خان بتاتے ہیں کہ وہ پناہ گاہ میں فراہم کیے جانے والے کھانوں کے اجزائے ترکیبی سے واقفیت نہ رکھتے تھے، لہٰذا وہ کچھ نہ کھا سکے۔ انہوں نے پناہ گاہ کے عملے سے اجزائے ترکیبی کی تفصیل پوچھی، لیکن ہنگامی حالات کے باعث وہ جواب دینے سے قاصر نظر آئے۔

یہ معلومات 15 مارچ 2023 تک کی ہیں۔

3- ثقافتی تبادلے کی ایک مقامی تنظیم کا ردعمل

این ایچ کے، قدرتی سانحات رونما ہونے کی صورت میں کیے جانے والے بچاؤ کے اقدامات سے متعلق سوالات کے جواب دے رہا ہے۔ ہمارے اس سلسلے میں توجہ اس امر پر مرکوز کی جا رہی ہے کہ قدرتی آفات کے بعد غیر ملکی افراد پیش آنے والے حالات سے کس طرح نبٹ سکتے ہیں۔

اپریل 2016 میں جب کُماموتو پریفیکچر میں طاقتور زلزلے آئے تو شہر میں رہنے والے مختلف قومیتوں کے تقریباً 4,500 افراد متاثر ہوئے۔ ان میں پاکستان، چین، جنوبی کوریا اور فلپائن کے لوگ شامل تھے۔

کُماموتو انٹرنیشنل فاؤنڈیشن نے ان کی مدد کی۔ اس تنظیم کو شہری حکومت کی جانب سے، غیر جاپانی باشندوں سے ان کی روزمرہ کی زندگی کے بارے میں باقاعدگی سے مشاورت کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ اس فاؤنڈیشن کا دفتر کماموتو سٹی انٹرنیشنل سینٹرمیں واقع ہے جسے کسی آفت میں غیر ملکیوں کی مدد کی کاروائیوں کے مرکز کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔

یاگی ہِیرومِتسُو نے جو اس وقت سیکرٹریٹ کے سربراہ تھے، فوری طور پر کاروائی کی تاکہ یہ مرکز انخلاء کے مقام کے طور پر کام کرے اور کئی زبانوں اور ثقافتوں کے مسائل حل کر سکے۔ جناب یاگی کا کہنا ہے کہ انہوں نے لوگوں سے زبان یا دیگر مسائل کے بارے میں پوچھنے کے لیے چکر لگائے اور دریافت کیا کہ آیا انہیں اپنی ثقافت کے لحاظ سے کسی مدد کی ضرورت ہے۔

جاپانی اور غیر ملکی شہریوں سمیت کوئی 140 افراد انخلاء کر کے اس مرکز میں آئے۔ کھانے کے نظام الاوقات، نقل و حمل اور دیگر معلومات، انگریزی، چینی اور دیگر زبانوں میں سفید بورڈ پر لگائی گئیں۔

حکام نے مذہب اور ثقافت کے مطابق مختلف غذائی ضروریات کا بھی خیال رکھا۔ جناب یاگی نے کہا کہ کھانے کے اجزائے ترکیبی بتانے سے کچھ لوگوں کو اطمینان ہوا۔

یہ معلومات 16 مارچ 2023 تک کی ہیں۔

4۔ پناہ گاہوں کی زندگی

این ایچ کے، قدرتی سانحات سے بچاؤ کے اقدامات کے بارے میں سوالات کے جواب دے رہا ہے۔ رواں سلسلے میں اس امر پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے کہ قدرتی آفات کے بعد غیر ملکی افراد پیش آنے والے حالات سے کس طرح نبٹ سکتے ہیں۔ آج کی قسط میں پناہ گاہوں میں رہنے والے غیر ملکیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

اپریل 2016 میں آنے والے زلزلے نے کُماموتو پریفیکچر کے بہت سے علاقوں میں تباہی مچا دی اور دیگر علاقوں سے ان کا زمینی رابطہ منقطع ہو گیا۔ قدرتی آفت آنے کی صورت میں غیر ملکیوں کی مدد کے لیے علاقے میں ایک مرکز مخصوص کیا گیا تھا۔ تاہم زلزلے کے بعد علاقے کے تمام غیر ملکی رہائشی اس مرکز میں اکٹھا نہ ہو سکے۔ چنانچہ مقامی حکام نے صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے گروپوں میں تقسیم ہو کر مختلف پناہ گاہوں کے دورے کیے۔

کُماموتو میں 30 سالوں سے مقیم محترمہ یانگ جُن نے انخلاء کرنے والے چینی رہائشیوں کی مدد کا بیٹرا اٹھایا۔ وہ کُماموتو انٹرنیشنل فاؤنڈیشن میں چینی زبان میں مشاورتی خدمات فراہم کرتی ہیں۔ پناہ گاہ کے دورے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ جاپانیوں سے کھچا کھچ بھری جگہ میں بھی غیر ملکی تنہاء نظر آئے۔

محترمہ یانگ بتاتی ہیں، ’’جب میں نے ان کی مادری زبان میں خیریت دریافت کی تو سالوں سے جاپان رہنے والوں کے چہروں پر بھی اطمینان نظر آیا۔ یہاں تک کہ بعض کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں‘‘۔

پناہ گاہوں میں لسانی رکاوٹ کے باعث مختلف مشکلات بھی پیش آئیں۔ ایک پناہ گاہ میں انخلاء کرنے والے جاپانیوں نے ضرورت سے زائد امدادی اشیاء لے جانے والے ایک غیر ملکی کی شکایت کی۔ محترمہ یانگ نے اس غیر ملکی سے بات کی تو پتہ چلا کہ وہ شخص اپنے اہل خانہ کے ایک فرد کی عدم موجودگی میں اس کے لیے بھی امدادی اشیاء لے جا رہا تھا۔ جب انہوں نے دوسروں کو یہ بات بتائی تو معاملہ رفع دفع ہو گیا۔

یہ معلومات 17 مارچ 2023 تک کی ہیں۔

5- انخلاء کرنے والوں کو تنہائی سے کیسے بچایا جائے؟

این ایچ کے، قدرتی سانحات سے بچاؤ کے اقدامات کے بارے میں سوالات کے جواب دے رہا ہے۔ رواں سلسلے میں اس امر پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے کہ قدرتی آفات کے بعد غیر ملکی افراد پیش آنے والے حالات سے کس طرح نبٹ سکتے ہیں۔ آج ہم انخلاء کرنے والوں کو تنہائی سے بچانے کے طریقوں کا جائزہ لیں گے۔

اپریل 2016 میں کُماموتو پریفیکچر میں آنے والے بڑے زلزلوں میں، ایک ایسا واقعہ بھی پیش آیا کہ علاقائی برادریوں کے لوگوں کے درمیان قریبی تعلقات نے غیر ملکی باشندوں کو الگ تھلگ نہ ہونے میں مدد کی۔

تائیوان سے تعلق رکھنے والی چیُو کُواے فین، شہر میں جاپانی زبان کی طالبہ تھیں۔ جب زلزلہ آیا تو انہوں نے اپنے چھوٹے بچے اور شوہر کے ساتھ ایک پناہ گاہ میں جانے کی کوشش کی۔ لیکن تمام پناہ گاہیں بھری ہوئی تھیں اور اُن کا گھرانہ گاڑی میں یا کسی دوست کے گھر رہنے پر مجبور ہوگیا۔

وہ کئی دنوں تک امدادی سامان یا کوئی معلومات حاصل کرنے سے قاصر رہیں۔

چار روز کے بعد، وہ بالآخر گھر واپس آ سکیں، لیکن انہیں پانی کا مسئلہ درپیش تھا۔ پانی کی فراہمی دوبارہ شروع ہونے کے بعد بھی نل کا پانی گدلا تھا اور اسے پینے یا نہانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔ انہوں نے غیر جاپانی دوستوں سے اس بارے میں پوچھا، لیکن کوئی معلومات حاصل نہ کرسکیں۔ کیا کِیا جائے، اس بارے میں معلومات نہ ہونے کی وجہ سے اُنہوں نے جاپانی کلاس میں اپنے رابطوں سے مدد ملی۔

چیُو اور دوسروں کو درپیش مشکلات کے بارے میں سن کر کلاس کے رضاکار اساتذہ نے انہیں روزمرہ کی زندگی میں معاونت دینے والی ضروری خدمات کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔ انہوں نے ایک میسیجنگ ایپ ’لائن‘ کا استعمال کرتے ہوئے جاپانی کلاس کے لیے ایک گروپ بنایا، اور کھانے کی تقسیم اور نہانے کے مقامات کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔

چیُو کا کہنا ہے کہ اس گروپ نے خاص طور پر اُس علاقے کے قریب واقع مقامات کے بارے میں معلومات فراہم کیں جہاں اُن کا خاندان اور دیگر لوگ رہتے ہیں، اور یہ عمل واقعی مددگار تھا۔

یہ معلومات 20 مارچ 2023 کی ہیں۔

6۔ غیر ملکیوں کیلئے بہ آسانی سمجھ میں آنے والی جاپانی زبان

این ایچ کے، قدرتی سانحات سے بچاؤ کے اقدامات کے بارے میں سوالات کے جواب دے رہا ہے۔ رواں سلسلے میں اس امر پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے کہ قدرتی آفات کے بعد غیر ملکی افراد پیش آنے والے حالات سے کس طرح نبٹ سکتے ہیں۔ آج ہم غیرملکیوں کو آسانی کے ساتھ سمجھ میں آنے والی جاپانی زبان پر نظر دوڑائیں گے۔

ہم نے قبل ازیں، 2016ء میں کُماموتو پریفیکچر میں آنے والے شدید زلزلے کے بعد غیر ملکی رہائشی جن تجربات سے گزرے اُس کے بارے میں بتایا تھا۔ ان واقعات سے عندیہ ملتا ہے کہ کوئی قدرتی آفت وغیرہ آنے کی صورت میں لسانی رکاوٹ پر قابو پانا اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔

لوگ ضروری معلومات کا کثیر زبانوں میں ترجمہ کرنے کیلئے اسمارٹ فون ایپس استعمال کر سکتے ہیں۔

وہ “اِیزی جیپنیز” کہلانے والی آسان جاپانی زبان بھی استعمال کر سکتے ہیں جسے حکومت اور بلدیاتی ادارے فروغ رہے ہیں۔

معلومات کو آسان فہم جاپانی زبان میں درست انداز میں پہنچانے کی یہ ایک کوشش ہے۔

“اِیزی جیپنیز” کو ویب سائٹس اور بلدیاتی اداروں کے اعلانات میں پہلے ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ توقع ہے کہ یہ زبان پناہ گاہوں میں بھی استعمال کی جائے گی۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بعض اوقات جاپانی اسلوبِ بیان میں مبہم معنی ہوتے ہیں جنہیں سمجھنا غیر ملکیوں کیلئے مشکل ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر یہ جُملہ “گوجیُو نی اوموچی کُداسائی” یعنی براہِ مہربانی اپنی مرضی سے لے لیجیے، اُس وقت اکثر استعمال کیا جاتا ہے جب کسی پناہ گاہ میں امدادی سامان تقسیم کیا جاتا ہے۔

مذکورہ جُملے کو اکثر اس معنی میں استعمال کیا جاتا ہے کہ جو اشیاء پیش کی جا رہی ہیں اُنہیں لوگ لے سکتے ہیں، لیکن صرف کم سے کم ضروری مقدار میں، تاکہ جس قدر ممکن ہو سکے زیادہ سے زیادہ لوگ یہ چیزیں لے سکیں۔

اگر اس کی وضاحت یوں کی جائے کہ ہر فرد صرف ایک شے لے سکتا ہے، تو اسے سمجھنا زیادہ آسان ہو گا۔

قدرتی آفات وغیرہ کے تجربات سے گزرنے والے غیر ملکیوں پر تحقیقی کام کرنے والے ایک ماہر نے کہا ہے کہ درست اور سمجھنے میں آسان طریقے سے پیغامات پہنچائے جانے کی صورت میں غلط فہمی پیدا ہونے کا امکان بہت کم رہ جائے گا۔

یہ معلومات 21 مارچ 2023 تک کی ہیں۔

7۔ ثقافتی و مذہبی اقدار پر پورا اترنے والی ہنگامی خوراک

این ایچ کے، قدرتی سانحات سے بچاؤ کے اقدامات کے بارے میں سوالات کے جواب دے رہا ہے۔ رواں سلسلے میں اس امر پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے کہ قدرتی آفات کے بعد غیر ملکی افراد پیش آنے والے حالات سے کس طرح نبٹ سکتے ہیں۔ آج کی قسط میں مختلف ثقافتی اور مذہبی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے ہنگامی خوراک کی فراہمی کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

بعض غیر ملکی افراد مذہبی اور ثقافتی وجوہات کے باعث پناہ گاہوں میں تیار کی گئی خوراک کھانے سے قاصر رہتے ہیں۔

مسلمان افراد اسلامی شریعت کے عین مطابق تیار اور ذخیرہ کیے گئے حلال اجزاء سے تیار کردہ کھانے ہی کھا سکتے ہیں۔ ایسے افراد کے لیے جاپان میں خوراک کی حلال سند یافتہ اشیاء ہنگامی استعمال کے لیے بھی دستیاب ہیں۔

اسی طرح جانوروں کے اجزاء سے تیار کردہ اشیاء کے بجائے صرف سبزیوں سے تیار کی گئی وِیگان خوراک بھی جاپان میں ہنگامی استعمال کے لیے دستیاب ہے۔ کسی جانور یا مچھلی کے اجزاء استعمال کیے بغیر تیار کی گئی خوراک کھانے والے افراد کے لیے کپ نوڈلز سمیت کئی اقسام کے وِیگان کھانے موجود ہیں۔

سانحات سے متاثر ہونے والے غیر ملکیوں کے حالات کا جائزہ لینے والی انسٹیٹیوٹ فار ہیومن ڈائیورسٹی جاپان کی یانگ زی زور دیتی ہی کہ خوراک کے حوالے سے خصوصی توجہ کے متقاضی افراد کے لیے ہنگامی خوراک کا پیشگی ذخیرہ رکھنا اہمیت رکھتا ہے۔ محترمہ یانگ مزید کہتی ہیں کہ پناہ گاہوں میں غیر ملکیوں کے لیے اور اس قسم کی خصوصی خوراک استعمال کرنے میں دلچسپی رکھنے والے جاپانی افراد کے لیے بھی اس کا پیشگی بندوبست کر کے رکھا جانا چاہیے۔

یہ معلومات 22 مارچ 2023 تک کی ہیں۔

8- غیر ملکیوں کو سانحات سے بچانے کے رہنماء

این ایچ کے، قدرتی سانحات رونما ہونے کی صورت میں کیے جانے والے بچاؤ کے اقدامات سے متعلق سوالات کے جواب دے رہا ہے۔ رواں سلسلے میں اس امر پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے کہ قدرتی آفات کے بعد غیر ملکی افراد پیش آنے والے حالات سے کس طرح نبٹ سکتے ہیں۔ آج کی آخری قسط میں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ غیر ملکی رہائشی اپنے اپنے علاقوں میں سانحات سے بچاؤ میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ویتنامی اور برازیلی باشندوں سمیت تقریباً 1,500 غیر ملکی افراد اوکایاما پریفیکچر کے سوجا شہر میں رہتے ہیں۔ دس سال پہلے اس شہر نے غیر ملکی باشندوں کے لیے ایک تربیتی منصوبہ شروع کیا تاکہ وہ اپنی برادریوں میں آفات سے بچاؤ میں قائدانہ کردار ادا کر سکیں۔ برازیل سے تعلق رکھنے والے تان شُن وائی کا اس منصوبے میں مرکزی کردار ہے۔ انہوں نے جاپانی شہریت اختیار کر لی ہے اور شہری بلدیہ کے اہلکار کے طور پر کام کرتے ہیں۔ تان کو یہ معلوم ہونے کے بعد بحران کا احساس ہوا کہ جو غیر ملکی انخلاء کا طریقہ نہیں جانتے تھے وہ مارچ 2011 کے شمال مشرقی جاپان کے زلزلے اور تسُونامی میں زیادہ خطرات کا شکار ہو گئے تھے۔ غیر ملکیوں کو آفات سے نمٹنے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی ضرورت کے بارے میں احساس ہونے کے بعد، انہوں نے شہری بلدیہ پر زور دیا کہ وہ غیر ملکی شہریوں کو ابتدائی طبی امداد کا انتظام کرنے یا ریت کے تھیلے بنانے کا طریقہ سکھانے جیسی بنیادی تربیت فراہم کرے۔ جن لوگوں نے تربیت حاصل کی وہ غیر ملکی رہائشیوں کے لیے آفات سے بچاؤ کے رہنماء بن گئے ہیں اور اپنی برادریوں میں تباہی سے بچاؤ کی مشقوں میں سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں۔ اس وقت شہر میں آفات سے بچاؤ کے رہنماء کے طور پر 8 ممالک کے 43 افراد ہیں۔ 2018 میں مغربی جاپان میں بڑے نقصانات کا باعث بننے والی شدید بارش کی تباہی کے دوران، تان اور دیگر رہنماؤں نے اپنی اپنی زبانوں، جیسے چینی اور پرتگالی میں معلومات فراہم کیں۔ انہوں نے آفت سے متاثرہ غیر ملکیوں میں امدادی سامان بھی تقسیم کیا، اور رہائشیوں کی مدد کے لیے شدید متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔

وہ سانحات سے بچاؤ کے ایسے کتابچے تیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جن میں غیر ملکیوں کے خیالات شامل ہوں۔ وہ ان کا 8 زبانوں میں ترجمہ کر کے غیر ملکی باشندوں میں تقسیم کریں گے۔

غیر ملکی باشندوں کی اپنی اپنی برادریوں میں آفات سے بچاؤ کی سرگرمیوں میں مستقل شمولیت، جاپانیوں کے ساتھ مل کر آفات پر قابو پانے کے لیے تعاون کا باعث بنتی ہے۔

یہ معلومات 23 مارچ 2023 تک کی ہیں۔