
اس بار کہانی ہمیں اُنیسویں صدی کے اواخر کے ایدو شہر لیے چلتی ہے، یہ شہر آج ٹوکیو کہلاتا ہے، یہاں ڈاکٹروں کے ایک گروپ کو ڈچ یعنی ولندیزی زبان میں تحریر کی گئی ایک کتاب حاصل ہوئی۔ اس کتاب میں موجود انسانی جسم کی اندرونی معلومات، قدیم چینی شعبۂ طب سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے معتبر تصوّر سے کہیں مختلف تھیں۔ اس سب صورتحال نے ڈاکٹروں کو متحیّر کر دیا اور انہوں نے انسانی جسم کے حقیقی عملِ تقطیع سے، ان تصویری خاکوں کی صداقت و مطابقت کی تصدیق کی۔ تب انہوں نے ولندیزی زبان سے اسے ترجمہ کر کے مسٔلے کا حل نکالا۔ یہ کام گویا پتوار اور چپّوؤں سے عاری ایک کشتی میں پُورے سمندر کو بند کر دینے کے مترادف تھا۔ پانچ جلدوں پر مشتمل یہ کائتائی شِنشو یعنی ’’تشریح الاعضاء میں نئی دستاویزات‘‘، ساڑھے تین سال میں مکمل ہوئی۔ مغربی تشریح الابدان سے متعلق یہ پہلی کتاب تھی جو جاپان میں ہمہ گیر طور پر پڑھی گئی۔ یہ پروگرام ایک ایسے عہد میں نئے علم کی خاطر اُن ڈاکٹروں کی پُرجوش جدّوجہد کا عکاس ہے کہ جب بیرونی دُنیا کے ساتھ روابط استوار کرنے پر شدید پابندیاں تھیں۔ اور یہ سب بیرونی دُنیا کے لئے جاپان کے دروازے کھلنے سے تقریباً ایک صدی قبل وقوع پذیر ہوا۔
