ڈی آر سی دنیا میں ٹنٹالم کی سب سے زیادہ مقدار پیدا کرتا ہے۔ یہ معدنی دھات اسمارٹ فون اور کمپیوٹر کے برقی کنڈنسروں کی تیاری میں استعمال ہوتی ہے۔ جس پہاڑی مشرقی خطے سے اسے نکالا جاتا ہے وہاں مسلح گروہوں کی اجارہ داری ہے۔ اس خطے پر کنٹرول کی لڑائی دو دہائیوں سے چلی آئی ہے اور پچاس لاکھ سے زائد افراد کی جانیں لے چکی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ سب سے خونی مسلح تنازع ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزین کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال نومبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے اندر 56 لاکھ افراد بےگھر ہو چکے تھے۔ ملک سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہونے والوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے متجاوز ہے۔
اسی تناظر میں ڈی آر سی کی ٹنٹالم عالمی طور پر ’’پُر تنازع دھات‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے۔
تجارت ’’عظیم انسانی قیمت‘‘ پر
’’مشرقی ڈی آر سی میں لوگ ایسا محسوس کرتے ہیں کہ کسی کو انکی پرواہ نہیں، کوئی انکی تکالیف سے آگاہ نہیں‘‘، ایسا کہنا ہے جین کلاڈ ماسوانا کا، جو شیگا پریفیکچر کے اندر ریتسومیئکان یونیورسٹی میں پروفیسرِ معاشیات ہیں۔
ماسوانا ڈی آر سی کے دارالحکومت کِنشاسا میں پلے بڑھے اور بیس سال سے زائد عرصے سے جاپان میں مقیم ہیں۔ جنگ و جدل سے متاثرہ صوبوں کے لوگ انہیں، تنازع کی تازہ ترین صورت حال سے آگاہ رکھتے ہیں۔
جنوبی کیوو صوبے کے ایک شہری گروپ لیڈر سے حالیہ بات چیت کے دوران ماسوانا کو پتا چلا کہ لڑائی کی وجہ سے کئی دیہاتوں میں رہائشیوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ بعض تو فرار ہونے کے دوران قتل بھی کر دیے گئے۔
’’معدنیات سے اس استفادے کی بھاری انسانی قیمت چکانا پڑتی ہے‘‘، ایسا کہنا ہے ماسوانا کا۔
استحصال روکنے کی کوششیں، ناکافی
بعض ممالک ڈی آر سی سے آنے والی ٹنٹالم کا عالمی سپلائی چین میں داخلہ روکنے کی کوشش کرتے آئے ہیں۔ امریکی حکومت نے سنہ 2010 سے کمپنیوں پر لازم کر رکھا ہے کہ وہ بتائیں آیا انکی مصنوعات میں ڈی آر سی کی معدنی دھاتیں شامل ہیں۔ یورپی یونین نے بھی ایسا ہی اقدام لاگو کر رکھا ہے۔
تاہم ٹنٹالم اور، ٹین، ٹنگسٹن اور سونے جیسی دیگر پُر تنازع معدنی دھاتوں کی تجارت اکثر کئی براعظموں پر محیط ہوتی ہے، جسکے سبب انکا اصل منبع تلاش کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ جاپان میں صرف چھ فیصد کمپنیاں پتا لگا پاتی ہیں کہ انکے خام مال کا اصل منبع کس جگہ پر تھا۔
ماسوانا کہتے ہیں کہ یہ جاننے پر بھی کہ مال اصل میں کہاں سے آیا ہے، غلط کاروں کے احتساب کا کوئی نظام وجود نہیں رکھتا۔ وہ نشاندہی کرتے ہیں کہ جب تک سب کچھ ٹھیک چلتا رہے، بیشتر کمپنیوں کو کوئی فکر بھی نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں، ’’کاروبار جاری رکھنے کے لیے دنیا نے سرچشمے کے تلخ حقائق سے متعلق آنکھیں بند کر رکھی ہیں‘‘۔
یونیورسٹی آف ٹوکیو میں معاون پروفیسر ہانائی کازُویو جو پُر تنازع معدنیات معاملات کی ماہر ہیں وہ کہیں زیادہ سخت ضوابط پر زور دے رہی ہیں۔ انکا دعویٰ ہے کہ سمگلنگ، نگرانی کے فقدان اور بد عنوانی کے سبب، موجودہ ضوابط کی افادیت، محدود ہے۔
وہ کہتی ہیں، ’’بین الاقوامی برادری کو معدنیات کو بیک ٹریس کر کے سارے عمل کی نگرانی کرنے کی کاوشوں پر زیادہ توجہ اور دھیان دینا چاہیے اور اس مقصد کے لیے انسانی و مالی وسائل بھی بڑھانے چاہئیں۔ اسکے علاوہ، الیکٹرانکس انڈسٹری کی کمپنیوں کو ان کوششوں کی معاونت کرنی چاہیے‘‘۔
پناہ گزین کمپیوٹروں میں نئی روح پھونکتے ہیں
جاپان میں بعض کاروبار اس جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔ ان میں سے ایک یوکوہاما میں نئی کمپنی پیپل پورٹ ہے جو پُر تنازع معدنی دھاتوں پر انحصار ہی ختم کر دینا چاہتی ہے۔ یہ 2018 میں بنی اور استعمال شدہ کمپیوٹروں کی فروخت اس کا خاصہ ہے۔ افریقہ سے تعلق رکھنے والے پناہ کے متلاشی چار افراد کمپنی کے بارہ کے عملے میں شامل ہیں۔ یہ سب تشدد اور ظلم و ستم سے جان بچا کر آئے ہیں۔
’’صرف ایک کمپیوٹر بنانے میں بہت غلط کام ہوتے ہیں‘‘۔ ایسا کہنا ہے عملے کے ایک افریقی رکن کا جو نام ظاہر نہ کرنے کی خواہش کے ساتھ مزید بتاتے ہیں، ’’جنگ کے سبب بچے والدین سے محروم ہو رہے ہیں۔ میں بُرے نتائج دیکھ چکا ہوں‘‘۔
پیپل پورٹ کے بیشتر کمپیوٹروں میں ٹنٹالم والے کپیسٹر موجود ہیں۔ کمپنی کے سی ای او آؤیاما آکیہیرو کا عقیدہ ہے کہ پرانے ماڈلز کو ٹھیک کرنا اور نیا بنانا، پُر تنازع معدنی دھاتوں پر عالمی انحصار کم کرنے میں معاون ہو سکتا ہے۔
پیپل پورٹ انہیں ناصرف آن لائن بلکہ ٹوکیو بھر میں اسٹالوں پر بھی فروخت کرتی ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں وہ تین ہزار سے زائد یونٹس کا لین دین کر چکی ہے۔ آؤیاما کہتے ہیں کہ نئے کردہ ماڈلز کی قیمت، عموماً نئے ماڈلز کی نصف ہوتی ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ انکی طلب بڑھتی رہے گی۔ انکا یہ بھی ماننا ہے کہ صارفین زیادہ باشعور ہوتے جا رہے ہیں۔
’’میری خواہش ہے کہ لوگ اس بارے میں مزید سوچیں کہ جو مصنوعات اور خدمات وہ استعمال کرتے ہیں انکے پس پردہ کیا ہے اور وہ کن حالات سے جڑی ہیں،‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ’’امید کرتا ہوں کہ ہمارے کمپیوٹروں کی کہانی لوگوں کو انتخاب کا فیصلہ کرتے وقت ایک نہیں دو بار سوچنے کا عمدہ موقع فراہم کرے گی‘‘۔
برقی گاڑیاں کوبالٹ کی طلب بڑھا رہی ہیں
دنیا کو کاربن نیوٹرل بنانے کا رجحان کوبالٹ کی طلب بڑھا رہا ہے جو برقی گاڑیوں کو چلانے والی لیتھیم ایون بیٹریوں کا لازمی جز ہے۔ ڈی آر سی اسکی عالمی سپلائی کا تقریباً ستر فیصد فراہم کرتا ہے، اور تخمینوں کے مطابق 2040 تک طلب چھ گنا بڑھنے والی ہے۔
ڈی آر سی کی چھوٹی، ضوابط کی گرفت سے آزاد کوبالٹ کانیں، چائلڈ لیبر سمیت انسانی حقوق کی پامالی کے حوالے سے بد نام ہیں۔
ایک اور جاپانی کمپنی اس مٹیریل کا زیادہ اخلاقی طور پر حصول یقینی بنانے کے طریقے بنا رہی ہے۔ فُوکوئی پریفیکچر میں واقع JX میٹلز سرکُولر سلوُشنز نے پرانی لیتھیم ایون بیٹریوں سے کوبالٹ کو انتہائی خالص حالت میں الگ کر لینے کا ایک طریقہ اپنے طور پر وضع کیا ہے۔ پرانی لیتھیم ایون بیٹریوں سے یہ معدنی دھات ری سائیکل کر کے برقی گاڑیوں کی نئی بیٹریوں میں اسے استعمال کرنے کا منصوبہ ہے۔
تشدد کا چکر توڑ ڈالنا
ماسوانا اور ہانائی جانتے ہیں کہ اس طرح کی کوششوں سے کچھ فرق تو ضرور پڑتا ہے لیکن انسانی استحصال کے مجموعی تناظر میں یہ فقط برف کے تودے کا اوپری سرا ہے۔ آنے والے سالوں میں وہ مزید اختراعی حل سامنے لائے جانے اور خاص طور سے تشدد کو روکنے کے زور دار اقدامات کیے جانے کے منتظر ہیں
’’اس طرح کے جرائم کا طویل عرصے سے جاری رہنا اس وجہ سے بھی ہے کہ ڈی آر سی میں ظالم سزا سے بچ نکلتا ہے،‘‘ ایسا کہنا ہے ماسوانا کا، یعنی اگر غلط کار سزا یا تادیبی کارروائی ہی سے بچ نکلے تو وہ اپنی گھناؤنی حرکتوں سے کیوں باز آئے گا۔ ’’اس گھناؤنے لامتناہی سلسلے کو توڑنے کا سلسلہ شروع کرنے کا نظام ہونا چاہیے، ورنہ جنگجو سردار، ان پُر تنازع معدنیات کو عالمی سپلائی چین میں ڈالنے کی کوئی نہ کوئی ترکیب ہمیشہ نکالتے ہی رہیں گے‘‘۔
پیپل پورٹ کی ٹیم بھی ایسا ہی محسوس کرتی ہے۔ بطور مختصر کاروبار، وہ اب تک کے اپنے اقدامات پر فخر محسوس کرتے ہے۔ ’’جتنے کمپیوٹر ہم نئے کر سکتے ہیں وہ محدود ہو سکتے ہیں،’’ آؤیاما بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’’لیکن ہماری مصنوعات کی کہانی صارف کا ذہن بدلنے میں معاون ہو سکنے والا کہیں بڑا پیغام پہنچا سکتی ہے‘‘۔