جنگل میں تنہاء
ماتُسوموتو،عام طورپرہرسال الاسکا کےدو دورے کرتےہیں :جنوری سے مارچ تک،اور پھردوبارا جون سے ستمبر تک۔ وہ تنہا سفر کرتے ہیں،جو کہ غیر معمولی اور خطرناک ہے ، انتہائی پُرخطرماحول کاجوکھم ،جس میں وہ داخل ہوتےہیں ۔
ایک سفر کے دوران انہوں نے رات گزارنے کے لیے ایک منجمد دریا پر اگلوُ،بنایا جب کہ باہر کا درجہ حرارت منفی 50 ڈگری سیلسیس تک گرگیا تھا ۔ یہ سب کچھ شمالی امریکا کی بلند ترین چوٹی Denali کے پیچھے چمکتی ہوئی شمالی روشنیوں کو کیمرے میں اتارنے کے لیے کیا۔
پرفیکٹ شاٹ تلاش کرنے کے لیے،ماتسُوماتو،کے انتہائی عزم نے انہیں جاپان کےفوٹوگرافی کے اعلیٰ ترین انعامات میں سے ایک کیمُورا ایہی ایوارڈ (Kimura Ihei Award) کےلیے نامزدگیوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے میڈیا آؤٹ لیٹس کی جانب سے پذیرائی بخشی ہے۔
’’صرف ایک جگہ جہاں میں فوٹوگرافی کرنا چاہتا ہوں وہ الاسکا،ہے۔‘‘ ماتسُوموتو،کا کہنا ہے ،’’وہاں بہت ساری چیزیں ہیں جنہیں میں شوٹ کرنا چاہتا ہوں،غالباً جتنی اپنی زندگی میں کی اس سے کہیں زیادہ ‘‘
ماتسُوموتو،عالمی وباء کورونا کے شروع ہونے کے بعد سے الاسکا ، واپس نہیں جاسکے ہیں ۔اس کے بجائے ،وہ جاپان بھر کا سفرکررہے ہیں اور اسکولوں میں تقریبات کی میزبانی کررہے ہیں ،جہاں وہ اپنے دوروں کے بارے میں بتاتے ہیں ۔
’’آپ میں سے کسی نے الاسکا،نامی جگہ کا نام سنا ہے ؟ آپ وہاں ہمپ بیک وہیل کو کھانا کھاتے دیکھ سکتے ہیں ۔‘‘
وہ طالب علموں کو الاسکا ،کی تصاویر دیکھاتے ہیں،ایک ایسی جگہ جس کے بارے میں ان میں سے زیادہ تر کو بہت ہی کم معلومات ہے ۔
’’میں ان کو اتنی زیادہ خوشی دینے کے قابل ہوں ، اور وہ بھی صرف وہی کرکے جو مجھے پسند ہے ۔دنیا میں اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے ؟‘‘
ماحولیاتی تبدیلی
تاہم حال ہی میں ، ماتسُوموتو، نے الاسکا،کے ایک دوسرے پہلو یعنی موسمیاتی تبدیلی کے نقصان دہ اثرات کی دستاویزی شہادتیں بنانی شروع کردی ہیں ۔
اوپر دی گئی تصویر پرمافراسٹ ، میں ایک سوراخ دکھاتی ہے ۔بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے زمین پگھل گئی ہے ، جو پہلے ہمیشہ منجمد رہتی تھی ،اس سے سڑکوں میں دراڑیں پڑ رہی ہیں اور گھروں کو نقصان پہنچا ہے ۔
ماتسُوموتو، کہتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کی علامات برف پگھلنے تک ہی محدود نہیں ہیں ۔ وہ سمندر میں بھی اثرات دیکھ رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا ،’’ایک ایسا علاقہ ہے جہاں عموماً بہت ساری وہیل ہوتی ہیں لیکن ایک موسم گرما میں مجھے کوئی نظر نہیں آئی ،‘‘ وہ کہتے ہیں ،’’مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ پانی میں درجہ حرارت زیادہ ہوجانے کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے ۔جب ایسا ہوتا ہے تو وہیل مچھلیوں کی خوراک پلانکٹن اور چھوٹی مچھلیاں غائب ہوجاتی ہیں ۔اور اسی طرح وہیل بھی ۔وہاں سمندرعموماً وہیل مچھلیوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا ،اور یہ اچانک خالی ہوگیا ۔ میں دنگ رہ گیا ۔‘‘
’’ہم ذمہ دار ہیں ‘‘
ماتسُوموتو ، نے ایک گھر بھی دیکھا جو ان کے گزشتہ دوروں میں وہاں موجود تھا وہ ساحل کے کٹاؤ کے سبب ایک جانب جھک گیا تھا۔یہ گلیشیئرپگھلنے کا نتیجہ تھا ۔
’’مقامی رہاشیوں نے کچھ بھی غلط نہیں کیا ۔ ان کا تو فطرت سے ہمیشہ گہرا تعلق رہا ہے ۔مگر وہ ہم جیسے لوگوں کی وجہ سے تکلیف اٹھا رہے ہیں ۔میں کمپیوٹر استعمال کرتا ہوں ، کار چلاتا ہوں ،ہوائی جہازوں میں اڑتا ہوں ۔ میں خاموش رہا،کیوں کہ میں نے سوچا ، ’’مجھے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں پرچار کرنے کا کیا حق ہے ؟ ‘‘
بولنے کا وقت
ماتسُوموتو، کو احساس ہوا کہ فطرت تباہ ہورہی ہے جب کہ وہ کھڑے تھے۔انہوں نے فیصلہ کیا کہ نوجوانوں کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کےبارے میں بتانا ان کا فرض ہے ۔
’’بلاشبہ، میں اب بھی یہ سوچتا ہوں کہ مجھے موسمیاتی تبدیلیوں کے بارے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں جیسے کہ،’آیئے کرہ ارض بچائیں ،لیکن اب میں مزید انجان نہیں رہ سکتا ۔مجھے یقین ہے کہ الاسکا، میں صورتحال نازک ہوتی جارہی ہے ۔اگر ہم نے ابھی کچھ نہیں کیا تو بہت دیر ہوجائے گی ۔‘‘
جب موسمیاتی تبدیلی پر بات کرتے ہیں تو ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ طالب علموں پراپنے خیالات بہت زیادہ نہ تھوپیں ۔اس کے بجائے وہ ان کو انہیں کے اخذ کیے نتائج تک پہنچنے میں مدد کریں ۔
’’قدرت کی مہربانی ہے کہ ہم سب آج یہاں ہیں ، ہنس بول رہے ہیں اور اچھا وقت گزر رہے ہیں ،‘‘ انہوں نے ایک حالیہ تقریب میں کہا ۔
’’یہ سب قدرت کی نعمت ہے ۔اسی لیے میں اپنے ماحول کیے تحافظ کے لیے اپنی بھرپور کوشش کرنا چاہتا ہوں ۔آپ کا کیا خیال ہے ؟ ‘‘
’’میں یہ جان کر دکھی ہوا کہ ہمارا وجود، الاسکا ، میں لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بن رہا ہے ۔‘‘ بعد میں ایک طالب علم نے کہا ۔ ’’موسمیاتی تبدیلی کو مکمل طور پر روکنا مشکل ہوسکتا ہے ، لیکن جو کچھ بھی ہوسکےہمیں کرنا چاہیے ۔ ‘‘
ماتسُوموتو،الاسکا،کی دستاویزی شہادتیں بنانی جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں ، ایک بار جب وہ وہاں واپس جاسکیں ۔
’’ اگرچہ میں منافقانہ جذبات سے نمٹ رہا ہوں، لیکن میں حقیقت سے منہ موڑنے والا نہیں ہوں ۔‘‘ وہ کہتے ہیں،’’ میں مؤثر طور پر اثرانداز ہونے کے لیے جو بھی چھوٹا سا کردار ادا کرسکتا ہوں ادا کروں گا ۔‘‘