ایٹمی غلطیاں ہرگز نہ دہرائی جائیں:ایٹم بم متاثرہ خاتون
Backstories

ایٹمی غلطیاں ہرگز نہ دہرائی جائیں:ایٹم بم متاثرہ خاتون

    NHK World
    Senior correspondent
    یوکرین کے خلاف جارحیت کے دوران روس کی طرف سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی نے ایٹمی بمباری سے متاثرہ ایک جاپانی خاتون کے زخم دوبارہ ہرے کر دیے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ان ہتھیاروں کے بھیانک روپ کو یاد کرنے کی ضرورت اب سب سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔

    ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے سرگرم غیر سرکاری تنظیم، بین الاقوامی مہم برائے انسداد جوہری اسلحہ، آئی کین، کو 2017 میں امن کا نوبل انعام دینے کی تقریب میں سیتسُوکو تھُرلو نے ہیروشیما میں اس بمباری سے گزرنے کے تجربے کا حال بیان کرتے ہوئے جذباتی خطاب کیا۔ وہ دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کی مہم چلاتی آئی ہیں اور یہ تقریب ان کی زندگی بھر کی کاوشوں کا نچوڑ تھی۔

    اب 90 سال کی عمر میں انہیں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا خطرہ دوبارہ محسوس ہو رہا ہے اور وہ ان کے خلاف آواز دوبارہ بلند کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ انہوں نے این ایچ کے کے یابُواُوچی جُنیا کو یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت سے متعلق اپنےخیالات سے آگاہ کیا۔

    سیتسُوکو تھُرلو نے 2017 میں امن کا نوبل انعام دینے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ہیروشیما میں ان پر کیا گزری۔

    ’’میں غصے کے مارے لرزنے لگی‘‘۔

    یابُواُوچی جُنیا: یوکرین کے خلاف روسی جارحیت کے ارتکاب کا پہلی بار سن کر آپ کو کیسا محسوس ہوا؟

    سیتسُوکو تھُرلو: پہلے میں انتہائی خوفزدہ ہو گئی۔ پھر غصے کے مارے لرزنے لگی۔

    خوف اور غصے کے 77 سال قبل محسوس ہونے والے جذبات نے مجھے دوبارہ گھیر لیا اور میں نڈھال ہو گئی۔ یہاں تک کہ میری بھوک اڑ گئی۔

    یابُواُوچی: روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے ایٹمی ہتھیاروں سمیت ملکی دفاعی افواج کو تیاری کی حالت میں رہنے کا حکم جاری کیا ہے۔ آپ اس بارے میں کیا کہتی ہیں؟

    تھُرلو: میرے خیال میں ایٹمی دھمکی اچانک دے ڈالنا عاقبت نااندیشی کی انتہا ہے، لیکن دیوار سے لگائے جانے کی صورت میں وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ سوچنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔

    میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے ہیروشیما کو جہنم زار میں بدلتے دیکھا۔ اس وقت میری عمر 13 سال تھی۔ آن واحد میں بے شمار افراد میری نظروں کے سامنے لقمہ اجل بن گئے۔ ان حالات سے گزرنے کے بعد مجھ پر عیاں ہوا کہ ہر ایک فرد کو حاصل انسانی حقوق کی پرواہ کیے بغیر لاتعداد افراد کے بلا امتیاز قتل و غارت کے غیر انسانی فعل کی کبھی بھی اجازت نہیں دی جانی چاہیے کیونکہ تمام انسانوں کو جینے کا حق حاصل ہے۔

    Setsuko Thurlow
    تھُرلو نے ٹورنٹو میں واقع اپنے گھر سے این ایچ کے سے بات کی۔

    ’’ایٹمی حملے دنیا میں کہیں بھی ہو سکتے ہیں‘‘۔

    تھُرلو: یوکرین میں بچوں اور بڑوں سمیت بے شمار بے گناہ افراد خون جما دینے والی سردی میں مارے مارے پھر رہے ہیں تاکہ کوئی ایسا ٹھکانہ مل سکے جہاں وہ اپنے آپ کو گرمائش پہنچا سکیں۔

    صدر پوٹن ٹی وی پر یہ سب دیکھنے کے باوجود حملے جاری رکھنے کا حکم صادر کر رہے ہیں۔ کس قدر بے رحم شخص ہے یہ!

    یوکرین میں رہنے والوں کے دگرگوں حالات کا روزانہ سنتی ہوں۔ میں ان کے مصائب و آلام کو محسوس کر سکتی ہوں کیونکہ عشروں پہلے میں خود بھی ایٹمی بمباری سے گزر چکی ہوں۔

    اس وقت چار سال کا میرا بھانجا ایٹم بم کی تپش سے جھلس گیا۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ اس کی لاش کسی انسان کی ہے۔ بس جلے ہوئے گوشت کا لوتھڑا باقی رہ گیا تھا۔ یہ منظر آج بھی میرے ذہن پر نقش ہے اور جب بھی ایٹمی جنگ کے خطرے کا سنتی ہوں تو یہ منظر میری نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔

    یوکرین میں رہنے والوں کے مصائب کا ادراک کرنا اور ان کی مدد کرنا تو ضروری ہے، لیکن میں چاہتی ہوں دنیا بھر کے لوگوں کو پتہ چلے کہ یوکرین میں رہنے والے ہی نہیں بلکہ ہم سب خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ جوہری ہتھیاروں سے مسلح نو ریاستوں میں سے کسی ایک کے رہنما نے بھی بٹن دبا دیا تو ایٹمی حملے شروع ہو سکتے ہیں۔ ان حملوں میں ٹوکیو، پیرس اور ٹورنٹو سمیت دنیا کے کسی بھی شہر کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

    ’’ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ریاستوں نے ہمیں یرغمال بنا رکھا ہے‘‘۔

    تھُرلو: مجھے ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ملکوں کے لیڈروں پر غصہ آتا ہے۔ انہوں نے ان ہتھیاروں کو ہماری سلامتی کے لیے ناگزیر قرار دے کر ہمیں یرغمال بنا رکھا ہے۔ وہ ایٹمی ہتھیاروں کی دفاعی قوت کے حق میں معلومات کا پرچار کر رہے ہیں۔ یہ بہت خطرناک عمل ہے۔

    یابُواُوچی: میرا اگلا سوال اسی سے متعلق ہے۔ اس جنگ کے باعث ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی سے دشمن کو حملہ کرنے سے باز رکھنے کی سرد جنگ کے زمانے کی سوچ پر بات چیت دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟

    تھُرلو: یوکرین کے بھائیوں بہنوں کا دکھ درد بانٹنا اور ان کی فوری مدد کرنا ضروری ہے۔ لیکن بس اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ ہمیں وسیع تناظر میں دیکھتے ہوئے سمجھنا ہو گا کہ یہ صرف یوکرین کا ہی مسٔلہ نہیں ہے۔ دنیا بھر کے لوگ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس نو ریاستوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں دنیا کے مستقبل کے بارے میں غور کرتے ہوئے اس نقطہ نظر پر بھی سوچ بچار کرنی ہو گی۔

    جوہری ہتھیاروں سے مسلح ریاستوں نے ایک طویل عرصہ اپنی ذمہ داریوں سے پہلوتہی کی ہے اور ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کی دفاعی قوت پر بھروسہ کرنے پر مجبور کیے رکھا ہے۔ آج کی صورتحال اسی سوچ کا شاخسانہ ہے۔

    تھُرلو لوگوں سے موجودہ صورتحال کو وسیع تناظر میں د یکھنے کی اپیل کرتی ہیں۔

    ’’ہمیں ایٹمی ہتھیاروں کو اپنے ملک میں لانے کی کبھی اجازت نہیں دینی چاہیے‘‘۔

    یابُواُوچی: امریکہ اور اس کے اتحادیوں میں ایٹمی ہتھیاروں کی مشترکہ ملکیت کے بارے میں بات چیت کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔

    تھُرلو: مجھے بے حد صدمہ ہوا، جب جاپان میں قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے امریکی ایٹمی ہتھیار ملک میں رکھنے پر سوچ و بچار کرنے کا وقت آنے سے متعلق میں نے سنا۔ لیکن موجودہ وزیر اعظم نے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔

    جب انہوں نے ہمیں یقین دلایا کہ حکومت جاپان ملک کے امن پسند آئین اور تین غیر ایٹمی اصولوں کی پاسداری کرتی رہے گی تو مجھے اطمینان نصیب ہوا۔

    ایٹمی ہتھیاروں کی مشترکہ ملکیت کے نتیجے میں پہلے سے زیادہ ممالک لاکھوں افراد کو بلا امتیاز قتل کر سکیں گے۔ وہ دوسروں کو ایٹمی ہتھیاروں سے دھمکا سکیں گے، یا دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں سے دفاع کی سوچ کی تائید کریں گے۔

    بڑی ایٹمی طاقت امریکہ کے تعاون سے جاپان میں ایٹمی ہتھیار لانے کا سوچ کر ہی میرا غصے سے برا حال ہو جاتا ہے۔ ہمیں ایسا ہونے کی کبھی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

    ایٹمی بمباری کے تجربے سے گزرنے یا نہ گزرنے سے قطع نظر وہ کیسے سوچ سکتے ہیں کہ بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے یہ ہتھیار، برے یا غیر قانونی نہیں ہیں؟

    تھُرلو نے 2017 میں اقوام متحدہ میں ایٹمی ہتھیاروں کی ممانعت کے سمجھوتے کے لیے مذاکرات سے متعلق اجلاس سے خطاب کیا۔

    ’’اپنے رہنماؤں کو بار بار بتائیے‘‘۔

    یابُواُوچی: آپ دنیا اور جاپان کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟

    تھُرلو: اس وقت مشکلات سے دوچار ہمارے بھائی اور بہنیں یوکرین سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں اور ہمسایہ ممالک سے مدد کے طلبگار ہیں۔

    ہم بہت شکرگزار ہیں کہ دنیا بھر کے لوگ ان کی جان بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ آئیں ان کی مدد کرنے والوں کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے مل کر کام کریں۔

    لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں چاہتی ہوں کہ آپ یوکرین ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کو درپیش بحران کے بارے میں بھی سوچیں۔ دنیا بھر میں 13 ہزار ایٹمی وار ہیڈ ہیں اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس 9 ریاستیں صرف ایک بٹن دباتے ہوئے انہیں استعمال کرنے کے لیے اب بھی تیار بیٹھی ہیں۔ یہ معاملہ فوری توجہ کا متقاضی ہے، اس بارے میں سنجیدگی سے سوچیئے۔

    آئیں ہم سب مل کر دنیا کو درپیش مسائل پر توجہ مرکوز کریں اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔ ایٹم بم کے تباہ کن نتائج کی آئندہ روکتھام کے لیے ہمیں ایک ساتھ مل کر پہلے سے بھی زیادہ اونچی آواز اٹھانی ہو گی۔

    اس پیغام کو دہرائیں اور اپنے اپنے ملک کے رہنماؤں تک پہنچائیں۔ میں چاہتی ہوں کہ ہر کوئی میرا ساتھ دے۔

    یہ انٹرویو 14 مارچ 2022 کو نشر کیا گیا۔
    ویڈیو دیکھیے: 01:45 (انگریزی میں)