حسینی نے جرمنی سے این ایچ کے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’میں دنیا کو اپنے ملک کی خوبصورتی دکھانے کے لیے افغانستان کی نمائندگی کرنا چاہتا تھا‘‘۔ وہ اپنی اہلیہ اور دو بیٹوں کے ساتھ وہاں پناہ گزین کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ’’نہ تو طالبان، نہ القاعدہ، نہ دولت اسلامیہ اور نہ ہی دھماکے، میں اپنی کامیابیوں سے ایک مثبت تاثر دنیا کو پہنچانا چاہتا تھا‘‘۔
حسینی ایک ماہر سلالوم اسکیئر ہیں جو جنوبی کوریا میں ہونے والے 2018 کے پیونگ چانگ سرمائی گیمز کے لیے کوالیفائی کرتے کرتے رہ گئے۔ انہوں نے فوراً ہی اپنی توجہ بیجنگ گیمز میں شمولیت کی جانب مرکوز کرنا شروع کی لیکن اچانک ہی سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
گزشتہ سال جب امریکہ افغانستان سے نکل گیا، طالبان نے تیزی سے دوبارہ کنٹرول سنبھال لیا۔ خصوصاً حسینی کے لیے اسکے گہرے مضمرات تھے۔ 30 سالہ حسینی اور انکے اہل خانہ کا تعلق ہزارہ نسلی اقلیتی گروپ سے ہے۔ اس گروپ کے خلاف متشدد ظلم و جبر ایک معمول رہا ہے۔ اس خوف کے پیش نظر کہ وہ ایک نمایاں ہدف ہو سکتے ہیں انہوں نے اہل خانہ کے ساتھ وہاں سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔
حسینی اب ایک اجنبی سرزمین پر اپنی زندگی کا نئے سرے سے آغاز کر رہے ہیں لیکن یہ ان کے لیے پہلی بار نہیں۔ 1990 کی دہائی سے انہوں نے 13 سال ایران میں ایک پناہ گزین کی حیثیت سے زندگی گزاری۔ بالاخر وہ بامیان واپس لوٹے اور اپنا گھر تعمیر کیا۔
زنگی اچھی گزر رہی تھی۔ وہ اپنے آبائی قصبے بامیان کے قریب گھنٹوں تک پہاڑوں پر چڑھتے اور پھر انہیں برف پر پھسلتے ہوئے واپس نیچے آنے میں چند ہی منٹ لگتے۔ انہوں نے بین الاقوامی سیاحوں کے لیے گائیڈ کے طور پر کام کیا اور مقامی بچوں کو اسکیئنگ بھی سکھاتے رہے۔ ان میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل تھے، اور یہ بات صرف چند سال قبل ہٹائی جانے والی انتہائی قدامت پسند طالبان حکومت کے دور میں ناقابل تصور تھی۔
انکا کہنا ہے کہ اب کی بار کی شورش میں مجھے زیادہ احساس ذمہ داری بھی تھا۔ ’’طالبان مجھے ڈھونڈ کر قتل کر سکتے تھے۔ میں نے اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں سوچا‘‘۔
وہ لوگ انتہائی محدود ساز و سامان کے ساتھ وہاں سے نکلے لیکن حسینی نے اپنا وہ قیمتی بیک پیک پیچھے چھوڑنے سے انکار کر دیا جو انہیں 2018 کے پیونگ چانگ سرمائی گیمز میں خصوصی مہمان کی حیثیت سے دیا گیا تھا۔
کئی طرح سے اس بیک پیک سے یاد دہانی ہوتی رہتی ہے کہ تسلسل سے خود پر یقین رکھنا ہے۔ حسینی کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف خود اولمپکس میں حصہ لینا چاہتے ہیں بلکہ دیگر افغانوں کی بھی وہاں تک پہنچنے میں مدد کرنا چاہتے ہیں۔ ’’اگر ہمیں تربیت کا موقع ملے اور درکار مدد مل جائے، تو ہم کوشش کر سکتے ہیں خواہ یہ کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو‘‘۔
وہ 2008 کے بیجنگ گرمائی اولمپکس کو یاد کرتے ہیں جب ہزارہ اقلیتی نسلی گروپ سے تعلق رکھنے والے تائیکوانڈو ایتھلیٹ روح اللہ نِکپائی نے افغانستان کے لیے پہلی بار کوئی اولمپک میڈل جیتا تھا۔ حسینی، نکپائی کی تقلید کرنا چاہتے ہیں جن کے میڈل جیتنے پر انکے ملک کے عوام نے نسلی وابستگی سے قطع نظر، یکجا ہو کر جشن منایا تھا۔
فی الوقت، جب جب ممکن ہو وہ خود کو فٹ رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ واحد شخص نہیں جس کی کامیابی کی راہ میں مشکلات حائل ہیں۔
’’اس بات سے قطع نظر کہ وہ وہاں سے نکل گئے یا وہیں پر ہی رہے، تمام افغان کھلاڑی جد و جہد کر رہے ہیں۔ ہم اچھی طرح سے ٹریننگ نہیں کر پاتے، حتی کہ کھیل کے بارے میں بھی سوچ نہیں پاتے۔ مجھے امید ہے کہ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی کے ارکان سمیت باقی دنیا کسی بھی طرح ہماری مدد کے لیے کوئی راستہ تلاش کر لے گی‘‘۔