کورونا  کی  عالمی وباء کے دوران  عدم مساوات میں اضافہ
Backstories

کورونا کی عالمی وباء کے دوران عدم مساوات میں اضافہ

    NHK Senior Economic Commentator /
    NHK World Special Affairs Commentator
    '’ہم پر ٹیکس لگائیں ، امیروں پر،اور اب ہم پر ٹیکس لگائیں ۔‘‘دنیا کے سو سے زائد کروڑ پتیوں اور ارب پتیوں نے گزشتہ ماہ عالمی اقتصادی فورم کو دستختوں کے ساتھ ایک کھلا خط ارسال کیا جس میں عدم مساوات پر کاروائی کی درخواست کی گئی تھی ۔

    انہوں نے نشاندہی کی کہ جب دنیا، کورونا کی عالمی وباء کے دوران مشکلات کا شکار ہے، وہیں انتہائی امیرترین افراد،اپنی دولت میں اضافہ ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔

    عالمی غربت کے خلاف کام کرنے والی تنظیم Oxfam کے مطابق،دنیا کے دس امیر ترین افراد نے گزشتہ دو سالوں کے دوران اپنی دولت دگنی سے بھی زیادہ 700 بلین ڈالرسے 1.5 ٹریلین ڈالر تک بڑھائی ہے ۔

    Oxfam کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا کہ"مرکزی بینکوں نےمعیشت کو بچانے کے لیےمالیاتی منڈیوں میں کھربوں ڈالر ڈالے،لیکن اس کے باوجوداس میں سے زیادہ تر نےاسٹاک مارکیٹ میں تیزی لانے والےارب پتیوں کی جیبوں کو خالی کردیاہے-

    پیرس اسکول آف اکنامکس کی عالمی عدم مساوات لیب کی’’عالمی عدم مساوات رپورٹ 2022 ‘‘،بھی بڑھتے ہوئے خلا کواجاگر کرتی ہے۔تنظیم کا کہنا ہےکہ دنیا کی دس فیصد امیر ترین آبادی مجموعی دولت کے 76 فیصد پر قابض ہے ۔

    جاپان مختلف نہیں

    حتیٰ کہ جاپان میں،ایک ایسا ملک،جہاں کے زیادہ تر لوگ خود کو متوسط طبقےکامانتےہیں عدم مساوات میں اضافہ ہواہے ۔

    میزُوہو ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجیز،کے ایک سروے سے پتا چلتا ہے کہ 2019 کے پہلےوبائی سال کے مقابلے میں تین ملین ین (26،000 امریکی ڈالر) سے کم ،سالانہ آمدنی والےگھرانوں کو عالمی وباء کےاثرات سےسب سے زیادہ نقصان اٹھاناپڑا ہے۔

    وہ دو سال پہلے کےمقابلےمیں کم کما رہے ہیں۔ان میں سے بہت سے لوگریستورانوں ، ہوٹلوں اور تفریحی صنعت میں غیر مستقل کارکن ہیں۔عالمی وباء میں ان شعبوں کو زبردستی بند کرنے،معطل کرنے یا کاموں کو محدود کرنے پرمجبوردیکھا گیاہے۔

    یہ ان لوگوں کے لیےایک مختلف صورتحال ہے،جو شروع کرنے کے لیے زیادہ کما رہے تھے۔ تقریباً 6 ملین سے7 ملین ین ( 61،000 ۔52،000 مریکی ڈالر )سالانہ آمدنی والے گھرانوں کو 2021 میں یا پچھلےسال تھوڑا سااضافہ ملا۔ اور وہ لوگ جو 10 ملین ین (87،000 امریکی ڈالر) کی رینج میں ہیں وہ ایک مضبوط بحالی سے لطف اندوز ہورہے ہیں ۔

    آٹو،الیکٹرانکس اور آئی ٹی کی صنعتوں کے لوگوں کو 2020اور2019 کےمقابلے میں 2021 میں بہت زیادہ بونس ملے ۔

    graph: Impact of Pandemic on Annual Household Income
    سالانہ گھریلوآمدنی پرعالمی وباء کا اثر( 2019 کےمقابلےمیں)

    مہنگائی نےغریبوں کو پیس دیاہے

    کم آمدنی والےگھرانوں کےلیےایک اور دھچکا جاپان میں مہنگائی بڑھ رہی ہے۔اگلےماہ گھریلو بجلی کی قیمتیں پانچ سال کی بلند ترین سطح پرپہنچ جائیں گی ۔

    آٹا،کافی،مایونیزاورسویا سوس،جیسی گھریلواشیاء سمیت مصنوعات کی ایک وسیع رینج مہنگی ہوتی جارہی ہے ۔

    میزُوہو ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجیز،نےپیشن گوئی کی ہے کہ غریب ترین گھرانے،گھریلوآمدنی کےمقابلےمیں 1.8 فیصد پوائنٹس کےاخراجات کے بوجھ کی توقع کر سکتے ہیں۔متوسط آمدنی والےگھرانوں کے لیے بوجھ 0.9 پوائنٹس،اور امیروں کے لیئے0.5 پوائنٹس ۔

    ماہر معاشیات یوُریکوشیماناکا، جنہوں نے یہ تحقیق کی ہے،ان کا کہنا ہے کہ کم آمدنی والے گھرانوں کے لیےمہنگائی کا بوجھ،’’متوقع ہےکہ انہیں دو فیصدکنزمپشن ٹیکس میں اضافےکا سامنا کرنا پڑےگا۔‘‘

    ’’وہ گھرانےعالمی وباء سے پیدا ہونے والی معاشی بدحالی اور روز مرہ زندگی کے بلند اخراجات سے دوگنا متاثر ہوں گے۔‘‘ یہ ان کی پیشن گوئی ہے ۔

    تعلیمی عدم مساوات بڑھ رہی ہے ۔

    ریکوُتو مینامی،اسی میزُوہو گروپ کے تجزیہ کار ہیں ،وہ آنے والی نسلوں پر،عدم مساوات کے وسیع فرق کے ممکنہ اثرات کے بارے میں فکرمند ہیں ۔

    ان کے تخمینوں کے مطابق،کم آمدنی والے گھرانوں نے 2019 کے مقابلےمیں 2021 میں تعلیمی اخراجات میں 15.1 فیصد کمی کی ہے ۔ اسی عرصے کے دوران زیادہ آمدنی والے خاندانوں نےمساوی اخراجات میں 4.8 فیصد اضافہ کیا ہے۔

    تعلیمی عدم مساوات کو خاص طور پرمسئلے کےطور پر دیکھا جارہا ہےکیوں کہ یہ غربت سے لڑنے والے لوگوں کےلیے راستہ تلاش کرنےکےمواقع کو محدودکرتی ہے ۔

    جاپان کی وزارت تعلیم کا کہنا ہے کہ عالمی وباء نے ان طلباءکے درمیان مواقع کی خلیج کو بڑھا دیا ہے،جو ڈیجیٹل ڈیوائسز کی قوت خرید رکھتے ہیں اور جو قوت خرید نہیں رکھتے۔

    دنیا کےچند امیر ترین افراد کی جانب سے حکومتوں سے مداخلت کا مطالبہ کیا گیاہے۔ جاپان کے حکام ان عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں جو کم آمدنی والے گھرانوں کی مدد کے ساتھ ساتھ ٹیکس کا منصفانہ نظام بنانے کےطریقوں پرغور کر رہے ہیں جوعدم مساوات کے بڑھتے ہوئے فرق کو مستقل ہونے سے روکے ۔