پوٹن اور لوکاشینکو کا جوہری اسلحہ مشقوں پر تبادلہ خیال

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ایک اہم اتحادی کے ساتھ تعاون پختہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ وہ جمعرات اور جمعہ کو بیلاروس کے شہر منسک میں صدر الیگزینڈر لوکاشینکو سے اقتصادی تعلقات اور جوہری ہتھیاروں کی مشترکہ مشقوں پر مصروف گفتگو رہے۔

قبل ازاں اسی ہفتے، روسی افواج نے اپنے ٹیکٹیکل جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کے ساتھ، بقول اسکے "عملی تربیت" کا آغاز کیا۔ پوٹن نے کہا کہ اس مشق میں تین مراحل شامل ہوں گے، اور بیلاروس، جس کی سرزمین پر روسی جوہری ہتھیار تعینات ہیں، دوسرے مرحلے میں شامل ہو گا۔

پوٹن نے مشقوں کو "طے شدہ اور بطور معمول" قرار دیتے ہوئے کہا کہ روس اور بیلاروس "کسی بھی چیز کو بڑھاوا نہیں دے ہیں"۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کو ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ کسی بھی "ناکامی" یا "غلطی" کے متحمل نہیں ہو سکتے اور انہوں نے نشاندہی کی کہ نیٹو کے ارکان بھی اسی طرح کی مشقیں کرتے ہیں۔

لوکاشینکو نے کہا کہ بیلاروس اور روس "کسی پر حملہ کرنے کی خواہش نہیں رکھتے" لیکن انہیں اپنے "دفاع" کے لیے ہتھیار استعمال کرنے کے قابل ہونا ضروری ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو ان مغربی ممالک سے تحفظ دیں گے جنہوں نے انہیں پابندیوں کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہیں ایک متحد صنعتی پالیسی کو "فوری طور پر مکمل" کرنا چاہیے۔

رہنماؤں نے یوکرین کی جنگ پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ پوٹن نے کہا کہ امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت ہے لیکن انہوں نے صدر ولودیمیر زیلینسکی کی بطور سربراہ مملکت "قانونی حیثیت" پر سوال اٹھایا۔

زیلنسکی نے اس سال کے شروع میں جنگ کی وجہ سے انتخابات ملتوی کر دیے تھے۔ پوٹن نے کہا کہ رہنما کی پانچ سالہ مدت ختم ہو چکی ہے، اور بات چیت کرنے کے لیے، انہیں "مطمئن" ہونا چاہیے کہ وہ "جائز حکام" کے ساتھ معاملات طے کر رہے ہیں۔